Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر1

ہیلو... کیسے ہو میرے دوست؟ فیصل نے فون کان سے لگاتے ہوئے چہک کر کہا........
فِٹ یار... تو بتا کیسا ہے....اور باقی سب کیسا چل رہا ہے، گھر میں سب کیسے ہیں؟ کامران ایک ہی سانس میں  جلدی جلدی بولا....
سب فِٹ ہیں یار...مگر تو کیوں اتنی جلدی میں لگ رہا ہے.....کیا ہوا خیر ہے؟اس نے پوچھا...
ہاں بس بزی ہوں تھوڑا.....ہمارے نئے میرج ہال کی کنسٹرکشن کے بارے میں تجھے بتایا تھا نا کچھ وقت پہلے....وہ کمپلیٹ ہو گیا ہے...اور اسی خوشی میں کل شام پارٹی رکھی ہے... کامران جوش سے بول رہا تھا۔۔۔
اررے وااہ....مجھے خوشی ہوئی سن کر... گریٹ..... مبارک ہو....فیصل کے لہجے سے بھی خوشی جھلک رہی تھی۔۔۔
تھینک یو۔۔۔انویٹیشن کے لیے ہی فون کیا ہے تجھے۔۔۔
اور 5 بجے تک لازمی پہنچ جانا۔۔۔کوئی ایکسکیوز نہیں چلے گا۔۔۔اوکے؟۔۔۔کامران بولا۔۔۔
ویل۔۔۔تجھے بھی میری روٹین تو معلوم ہے۔۔۔پر میں پوری کوشش کروں گا یار۔۔۔ڈونٹ وری۔۔۔آ جاؤں گا۔۔۔اس نے جواب دیا۔۔۔
اوکے۔۔۔ایک سرپرائز بھی ہے تیرے لیے۔۔۔اسی لیے کہہ رہا ہوں۔۔۔
واؤ۔۔۔ضرور۔۔۔ویسے بڑے دنوں بعد کال کی ہے یار کرتا رہا کر۔۔۔فیصل بولا۔۔۔
ہاں یار کروں گا... بس ٹائم نہیں نہ ملتا اصل میں...اور تو خود بھی تو نہیں کرتا...اچھا چل... کل ملتے ہیں نا پھر کر لیں گے باقی باتیں... ابھی اور بھی کالز وغیرہ کرنی ہیں...اس نے جواباً کہا۔۔۔
چل ٹھیک ہے۔۔۔اوکے اللہ حافظ۔۔۔فیصل نے فون کان سے ہٹاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔
فیصل ایک چوبیس سالہ خوبرو نوجوان تھا۔۔۔۔اچھی قامت رکھتا تھا،۔۔۔چہرے پر ہلکی بئیرڈ۔۔۔ بال ضرورت سے زیادہ لمبے تھے مگر برے نہ لگتے تھے۔۔۔۔
چوبیس سال کی عمر میں ہی وہ ایک شاندار ہوٹل کا مالک تھا جو کہ شہر کے بیچوں بیچ واقع تھا۔۔۔۔۔ہوٹل کی بنیاد تو اس کے والد ملک شعیب مرزا نے کافی برس پہلے رکھی تھی۔۔۔اور ساری باگ ڈور بھی انہی کے ہاتھ میں تھی۔۔۔۔مگر دو سال قبل عمر کے تقاضوں اور بیٹے کی قابلیت دیکھتے ہوئے انہیں اس بات کا ادراک ہو گیا کہ اب وہ ہوٹل کے معاملات سے دستبردار ہو کر ساری ذمہ داری فیصل کو دے سکتے ہیں۔۔۔۔پھر فیصل نے بھی توقعات سے بڑھ کر کام کیا اور ایک چھوٹے سے ہوٹل کو شہر کے صف اول کے ہوٹلز میں سے ایک بنا کر رکھ دیا۔۔۔۔لیکن اس شاندار ہوٹل کی دن دگنی رات چُوگنی ترقی فیصل کے دو دوستوں ریان اور حمزہ کی بھرپور مدد سے ہوئی تھی۔۔۔۔
بدلے میں حمزہ کو تو ہوٹل میں مینیجر کی سیٹ مل گئی، لیکن ریان کا بیرون ملک علیحدہ کاروبار تھا، اس نے محض دوستی کی بنا پر ہی ایک خطیر رقم بطور قرض فیصل کو دی تھی۔۔۔۔جس میں سے آدھی سے زیادہ رقم ابھی لوٹانا باقی تھی۔۔۔۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
چُھٹی کی بیل ہوئی۔۔۔اور لڑکیوں کا ایک جم غفیر باہر آنے لگا۔۔۔۔۔۔
ایمان۔۔۔جلدی کرو یار۔۔۔سب نکل گئے ہیں بس ہم رہ گئے ہیں۔۔۔
گاؤن پہننے کے بعد ایمان نقاب کی پن لگا رہی تھی کہ اس کی دوست زارا بولی۔۔۔۔
ہاں بس۔۔۔ایک منٹ۔۔۔میں یہ نقاب سیٹ کر لوں۔۔۔پھر نکلتے ہیں۔۔۔ایمان نے کہا۔۔۔۔
آخر یہ تم اتنے لبادے اور برقعے وغیرہ کیوں پہنتی ہو جبکہ چار قدم پہ گھر ہے تمہارا۔۔۔زارا نے پوچھا تو ایمان مسکرا دی۔۔۔جواب تو وہ پہلے بھی کئی بار دے چکی تھی۔۔۔۔
زارا ایمان کی بیسٹ فرینڈ تھی اور چھٹی کے وقت دونوں ساتھ ہی کالج سے نکلتی تھیں۔۔۔۔زارا اکثر ہی اسکے اس درجے نقاب پر اعتراض کیا کرتی تھی۔۔۔۔حالانکہ اس سب میں بس چند منٹ ہی لگتے تھے۔۔۔۔جواباً ایمان بس اتنا ہی کہتی کہ  ایک فرض کام کو کیسے چھوڑ دوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ باہر نکلی تو اس کے ابا سلیم اختر اور چھوٹی بہن نور اس کے منتظر تھے۔۔۔۔
پھر وہ گھر کی جانب چل دیے۔۔۔۔۔کالج گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔۔۔تبھی پیدل آنا جانا ہی ان کا معمول تھا۔۔۔ایمان بی ایس کے تیسرے سمسٹر میں تھی جبکہ نور سیکنڈ ائیر میں۔۔۔۔ان کے والد سلیم اختر بھی کالج میں کلرک کے فرائض انجام دے رہے تھے۔۔۔۔
ایمان اور نور الھدٰی دونوں ذہین طالبات تھیں اور اسکالرشپ کی بنیاد پر کالج میں زیر تعلیم تھیں۔۔۔وگرنہ سلیم اختر کی معقول تنخواہ میں انکی بھاری فیسیں ادا کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔۔۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
آؤ۔۔۔میرے بچے۔۔۔۔فیصل کے گھر میں داخل ہوتے ہی عظیمی بیگم نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر پیار کیا۔۔۔۔اس وقت رات کا ایک بجنے کو تھا۔۔۔اور فیصل کی واپسی کا عموماً یہی معمول تھا۔۔۔۔... 
امی جان۔۔۔میں نے کتنی بار کہا ہے کہ آپ سو جایا کریں۔۔۔مجھے دیر ہو جاتی ہے۔۔۔آپ میرے لیے اتنی دیر تک جاگتی رہتی ہیں۔۔۔۔فیصل پیار بھرے لہجے میں ان کے ہاتھ تھام کر بولا۔۔۔۔
فیصل۔۔۔تمہیں پتہ تو ہے جب تک تم گھر نہ آ جاؤ مجھے نیند نہیں آتی۔۔۔ایک بار تمہیں دیکھ لوں پھر سکون مل جاتا ہے۔۔۔اچھا چلو اب آؤ۔۔۔۔
عظیمی بیگم فیصل کے ہمراہ اندر چلی گئیں۔۔۔۔

   1
0 Comments